Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

اسلام میں تاجروں کے فضائل و آداب

ماہنامہ عبقری - نومبر 2015ء

ان گھروں میں صبح و شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح ایسے لوگ کرتے ہیں، جن کو کاروبار اور خرید و فروخت اللہ تعالیٰ کی یاد، نماز کے اہتمام اور زکوٰۃ کی ادائیگی سے غافل نہیں کرتے، وہ ایک ایسے دن سے ڈرتے ہیں، جس دن دل اور آنکھیں الٹ پلٹ ہوجائیں گی

(نوٹ) اسلامی نقطہ نظر سے تجارت تمام پیشوں میں سے زیادہ عظمت و فضیلت اور درجہ و مرتبہ والا پیشہ ہے اور کیوں نہ ہو جبکہ بعض روایات کے مطابق رزق کے دس حصوں میں سے نو حصے صرف تجارت پر ہیں اوربعض کے مطابق رزق کے بیس دروازے ہیں جن میں سے انیس دروازے اللہ نے تجارت سے جوڑے ہیں اور اس لئے احادیث میں آتا ہے کہ سچے تاجر کا حشر صادقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا اور سچ بول کر تجارت کرنے والا عرش کے سایہ تلے ہو گا اور سب سے پہلے جنت میں جانے والا ہوگا اور تجارت تمام نبیوں میں اکثر وبیشتر کا پیشہ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی صحیح اصولوں سے تجارت کرنے والا بنائے اور ہمارا شمار بھی صادق و امین تاجروں میں فرمائے آمین! (ع م قاسمی)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ ان گھروں میں صبح و شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح ایسے لوگ کرتے ہیں، جن کو کاروبار اور خرید و فروخت اللہ تعالیٰ کی یاد، نماز کے اہتمام اور زکوٰۃ کی ادائیگی سے غافل نہیں کرتے، وہ ایک ایسے دن سے ڈرتے ہیں جس دن دل اور آنکھیں الٹ پلٹ ہوجائیں گی(اس نیک ارادہ اور مقصد سے) کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دے اور ان کو اپنے فضل سے مزید نوازے، اللہ تعالیٰ جسے چاہیں بے شمار روزی دیتے ہیں) بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہی انسانوں کے خالق اور رازق ہیں اور انسانوں کی معاشی ضروریات پوری کرنے کے کفیل و ضامن ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی سارے جہانوں اور تمام انسانوں کے پالنہار ہیں، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بار بار مختلف اسلوب میں تمام مخلوق کو رزق بہم پہنچانے کا اعلان فرمایا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورہ عنکبوت میں نہایت ہی واضح اور جامع انداز میں ارشاد فرمایا کہ ’’ اور بہت سے جانور ہیں جو اپنی روزی اٹھائے نہیںپھرتے، ان سب کو اور تم سب کو اللہ تعالیٰ ہی روزی دیتے ہیں، وہ بڑا ہی سننے اور جاننے والے ہیں (عنکبوت ۶۰) اور رزق رسانی کیلئے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بہت سارے وسائل و ذرائع (زراعت، تجارت، صناعت، اجرت و ملازمت وغیرہ) فراہم فرمادئیے ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’ اور اس زمین میں ہم نے تمہارے لئے (بے شمار) اسباب معاش مہیا کردیے ہیں‘‘ (اعراف۱۰) اللہ تعالیٰ نے ان اسباب معاش کی تفصیل سورۂ انعام کی دو آیتوں (انعام ۱۴۱۔۱۴۲) میں بیان کی ہے اور یہ واضح فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں زرعی و حیوانی رزق رسانی کا بلیغ ترین انتظام فرمایا ہے اور سورہ ق (آیات ۹۔۱۱) اور سورہ رحمان (آیات ۱۱۔۱۲) اور سورہ زخرف (آیت ۳۲) میں مزید تفصیل یہ ہے کہ قسم قسم کے باغات، موسم کے مختلف غلہ و میوہ جات اور بہت سے پھلدار درخت بہترین معاش ہیں، یقیناً اللہ تعالیٰ ہی حقیقی رزاق ہیں، حکیم و دانا ہیں اور ذرائع معاش کے بہترین نظم کرنے والے ہیں اور ہر ایک مخلوق کو اس کی ضرورت اور اپنی حکمت بالغہ کے مطابق رزق بہم پہنچانے والے ہیں۔ تجارت کی اہمیت :ان اسباب و ذرائع معاش (زراعت و باغبانی، صنعت و حرفت اور تجارت و کاروبار وغیرہ) میں سے قابل ذکر ذریعہ معاش تجارت ہے، یہ پیشہ بہت ہی قابل قدر و عظمت اور بڑی فضیلت والا ہے، بعض اکابرین امت کے نزدیک تجارت کا درجہ تمام پیشوں میں اول اور افضل ہے، چنانچہ صاحب اعانۃ نے تحریر فرمایا ہے کہ ’’ اسباب معاش میں سب سے زیادہ فضیلت والا پیشہ زراعت پھر تجارت ہے لیکن ایک جماعت کا کہنا یہ ہے کہ تجارت سب سے زیادہ فضیلت والا پیشہ ہے۔ (اعانۃ الطالبین) اورحضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ’’ یاایھاالذین آمنوا کلوا من طیبات مارقنا کم‘‘ کی تفسیر کے ذیل میں جہاد کے بعد تجارت کو ہی سب سے زیادہ بہتر اور سب سے زیادہ قابل ترجیح پیشہ قرار دیا ہے کہ ’’ سب سے بہتر کسب و کمائی جہاد ہے، اس کے بعد تجارت کا درجہ ہے، خاص طور پر وہ تجارت جو ایک ملک سے دوسرے ملک میں یا ایک شہر سے دوسرے شہر میں مسلمانوں کی ضروریات خاص کی چیزوں کو لانے اور لے جانے کا ذریعہ ہو، اس قسم کی تجارت کرنے والا شخص اگر حصول منفعت کے ساتھ مسلمانوں کی خدمت اور ان کی حاجت روائی کی نیت بھی رکھے تو اس کی تجارت عبادت کی بھی صورت بن جائے گی۔
قرآن وحدیث میں بھی تجارت کی بڑی فضیلت اور تاکید و ترغیب بیان ہوئی ہے۔ قرآن کریم نے متعدد آیات (بقرہ۱۶۸،جمعہ۱۰،عنکبوت ۱۷، قصص ۷۷، جاثیہ ۱۲، مزمل ۲۰) تجارت کے ذریعہ حاصل ہونے والے مالی فائدوں کو اللہ تعالیٰ کا فضل قرار دے کر تجارت کاپیشہ اختیار کرنے کی بڑی ترغیب و تاکید کی ہے، ایک آیت کریمہ میں تجارت کیلئے سفر کو تہجد میں تلاوت کی تخفیف کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ (سورہ مزمل ۲۰) اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی تجارت کی بڑی قدرو منزلت وارد ہوئی ہے‘ ایک حدیث میں ہے کہ تجارت سب سے عمدہ ذریعہ معاش ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’ سب سے عمدہ و پاکیزہ (اسلامی اصول و آداب کے مطابق) تجارت کرنے والوں کا پیشہ ہے‘‘۔ (کنزل الاعمال) نیز ایک دوسری حدیث میں تجارت کو قربت الٰہی کے حصول کا ذریعہ بتایا گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’ جو شخص مسلمانوں کے کسی شہر میں غلہ لے کر آیا اور اس دن کے بھائو کے مطابق اس غلہ کو بیچا تو اس شخص کو اللہ تعالیٰ کا قرب نصیب ہوگا‘‘۔ (ابن مردویہ) اسی طرح ایک حدیث میں آیا ہے کہ اپنے لئے، بال بچوں اور ماتحتوں کیلئے بقدر ضرورت، حلال و جائز ذریعہ سے مال کمانے کو آخرت میں سرخروئی اور کامیابی کا باعث قرار دیا گیا ہے، حدیث شریف کے مبارک الفاظ یہ ہیں کہ ’’ جو رزق حلال کمائی سے حاصل کرے تاکہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچے، بیوی بچوں کیلئے مشقت اٹھائے، پڑوسیوں کے ساتھ بھلائی چاہے تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کا چہرہ چودھویں رات کی مانند چمک رہا ہوگا۔ (بیہقی) اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ حلال کمائی کیلئے دوڑ دھوپ کرنا اور تھک کر چور اور نڈھال ہوجانا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت پسندیدہ اعمال ہیں اور یہ محنت و مشقت اللہ تعالیٰ کی مغفرت و بخشش کے ضامن ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد عالی ہے کہ ’’ حلال کمائی کے سلسلہ میں اپنے بندہ کو تھکا ماندہ دیکھنا اللہ تعالیٰ خوب پسند فرماتے ہیں‘‘۔ (فردوس دیلمی) نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا ہے کہ ’’ جو بندہ شام کو اپنے ہاتھ کی کمائی سے تھک کر چور ہوگیا تو اس کی مغفرت و بخشش ہوجاتی ہے‘‘(کنزل العمال) نیز حصول رزق میں سعی کوشش بعض گناہوں کی معافی و تلافی کا ذریعہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’بعض گناہ ایسے ہیں جن کا کفارہ صرف رزق حاصل کرنے میں فکر و اہتمام اور سعی و کوشش کرنا ہی ہے‘‘۔ (طبرانی) اسی طرح ایک نہایت ہی اہم اثر ہے کہ رزق حلال کی طلب میں مشقت و پریشانی اور ذلت و خواری برداشت کرنا دخول جنت کا موجب ہے۔ حضرت ابو اسحاق ابراہیم بن ادھم رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے کہ ’’ مجھے بعض اکابر امت کا یہ قول پہنچا ہے کہ ’’ رزق حلال کی طلب میں جو ذلت و خواری سے دو چار ہوگا تو جنت میں اس کا داخل ہونا بالکل طے ہے‘‘۔ (اتحاف السادۃ) یقیناً رزق حلال کی طلب اور اس کے حصول میں سرگرداں ہونا شریعت میں مطلوب و محمود اور مستحسن و مستحب ہے، چنانچہ قرآن کریم کی دو سورتوں (سورہ قصص۷۷ اور سورہ جمعہ ۱۰) میں حصول رزق کا صریح حکم موجود ہے اور بہت ساری احادیث مبارکہ میں کسب معاش کی تاکید موجود ہے، ایک حدیث میں ہے کہ کسب حلال عبادت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ اس نوجوان کا یہ عمل ( کسب معاش میں سرگرمی) فی سبیل اللہ ہی ہے‘‘ (طبرانی) یہ حقیقت بھی تسلیم شدہ ہے کہ تجارت تمام ذریعہ معاش میں سب سے زیادہ فضیلت اور ترجیح والا پیشہ ہے۔ قرآن کریم کی متعدد سورتوں(نور ۳۶،۳۸، اسراء ۶۶، نحل ۱۴، جاثیہ ۱۲، مزمل ۲۰ اور حشر ۸) میں تجارت اور اس سے وابستہ افراد کی بڑی تعریف و تحسین کے سیاق میں تجارت کی موثر ترغیب موجود ہے نیز احادیث مبارکہ میں تجارت کی بڑی تاکید اور موثر ترغیب وارد ہوئی ہے۔ ایک حدیث میں تجارت کا پیشہ اختیار کرنے کا حکم موجود ہے، آپ ﷺکا ارشاد مبارک ہے کہ ’’تجارت (کا پیشہ) اپنائو کیوں کہ اس میں رزق کا نواں حصہ ہے‘‘۔ (احیاء علوم الدین) نیز تجارت کا پیشہ تمام پیشوں میں سب سے زیادہ کارآمد اور نفع بخش ذریعہ معاش ہے۔ آپﷺ سے ایک مرسل روایت میں منقول ہے کہ ’’ رزق کے نو حصے تجارت میں ہیں اور دسواں حصہ جانوروں(مویشی پروری) میں ہے‘‘۔ (اتحاف السادۃ) اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ’’ رزق کے بیس دروازے ہیں، اس میں سے انیس دروازے تجارت کیلئے ہیں‘‘۔(کنزل العمال)
صحابہ و تابعین اکثرتاجر تھے:تجارت کی اسی قدر و منزلت، عظمت و فضیلت اور تاکیدو ترغیب کی اثر آفرینی تھی کہ اکثر حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تجارت پیشہ تھے اور تجارت ان کے درمیان قابل رشک تھی۔ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ’’ جہاد فی سبیل اللہ کے بعد اگر کسی حالت میں جان دینا مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے تو وہ یہ حالت ہے میں اللہ تعالیٰ کا فضل (روزی بذریعہ تجارت) تلاش کرتے ہوئے کسی پہاڑی درے سے گزر رہا ہوں اور وہاں مجھ کو موت آجائے‘‘۔ (بیہقی) اسی طرح حضرات تابعین کے عہد زریں میں بھی تجارت کی بڑی قدروقیمت تھی، خود تجارت کیا کرتے تھے اور دوسروں کو تجارت کا شوق دلایا کرتے تھے، چنانچہ حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ ’’ یہ بازار (تجارت کے مراکز) اللہ تعالیٰ کے عطیہ و نوازش کی جگہیں ہیں جو یہاں ( عطیہ الٰہی) لینے آئے گا تو وہ پائے گا‘‘۔ (اتحاف السادۃ)۔ اسی طرح حضرت ابو قلابہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ وہ اپنے متعلقین کو تاکید فرمایا کرتے تھے کہ ’’ اپنے بازار (تجارت کے مراکز) کو لازم پکڑ لو کیونکہ (تجارت کے ذریعہ بقدر ضرورت، جائز طریقہ سے، اچھی نیت کے ساتھ مال کماکر، لوگوں سے بے نیاز رہنا، ان کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا) بڑی عافیت میں سے ہے‘‘۔ (بیہقی)
تجارت اور تاجروں کے فضائل :تجارت تمام پیشوں میں سب سے زیادہ عظمت وفضیلت اور درجہ و مرتبہ والا پیشہ ہے اور یہ معاشرہ کے ہر عام و خاص کی ضرورت ہے اوروں کی طرح ہی حضرات انبیاء کرام علیہم السلام بھی ضرورت پر خریدو فروخت کیا کرتے تھے اور بازار بھی تشریف لے جایا کرتے تھے۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ’’ آپﷺ سے پہلے تمام انبیاء علیہم السلام بازاروں میں آمد و رفت رکھتے تھے‘‘۔ (درمنشور ۲/۲۴۳) نیز بکریوں کی تجارت حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ ’’معاش کے بہترین ذریعوں میں زراعت اوربکریوں (کی افزائش) کا کام ہے اور یہ نبیوں والا کام ہے‘‘۔ (مسلم)
حضرت زکریا اور حضرت دائود علیہم السلام کا صنعت اور تجارت میں بڑا اونچا مقام ہے۔ حضرت دائود علیہ السلام کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ ’’ حضرت دائود علیہ السلام ہر روز ایک زرہ بناتے اور اس کو چھ ہزار درہم میں فروخت کرتے تھے، اس چھ ہزار کو اس طرح صرف کرتے کہ دو ہزار تو اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتے اور چار ہزار درہم بنی اسرائیل کے فقراء و مساکین میں بطور صدقہ و خیرات تقسیم کردیتے‘‘۔سرور عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھی بعثت سے پہلے شرکت پر تجارت کی ہے۔ چنانچہ حضرت سائب رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ آپﷺ کے سامنے یہ بیان کیا کہ ’’ آپﷺ نے جاہلیت میں نبوت سے پہلے میرے ساتھ تجارت میں شرکت کی ہے اور آپ ﷺ بہترین شریک تھے‘‘۔ (ابو دائود) اسی طرح حضور نبی کریم ﷺ نے نبوت سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ مضاربت یا شرکت پر تجارت کی ہے۔ (ابن سعد) نیز آپ ﷺ نے اجرت پر بکریاں چرائی ہیں۔
ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضاحت فرمائی ہے کہ ’’ میں بھی اہل مکہ کی بکریاں اجرت پر چرایا کرتا تھا‘‘۔ (بخاری) اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مزدوری کا ذکر خیر قرآن مجید میں مذکور ہے یقیناً حضرات انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنے دور کے حالات اور ضروریات کے مطابق بعضوں نے صنعت و حرفت کو، بعضوں نے مویشی پروری کو اور بعضوں نے تجارت و کاروبار کو اختیار فرمایا اور اس طرح ان حضرات نے ہم اہل ایمان کے سامنے اپنا قابل اتباع نمونہ پیش فرمایا اور صنعت، اجرت اور تجارت کی اہمیت اور عظمت بیان فرمائی، خاص طور پر ہمارے پیارے نبی کریم حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تجارت کی بڑی ترغیب فرمائی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ تجارت بہتر اور بابرکت پیشوں میں ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے بہترین اور باعث برکت ذریعہ معاش کے سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ ’’ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور ہربیع مبرور( شریعت کے اصول و آداب کے مطابق تجارت و کاروبار) سب سے بہتر اور بابرکت ذریعہ ہیں‘‘۔ (احمد) نیز اچھی نیت کی بناء پر دنیا و آخرت میں اس کے بڑے فائدے ہیں اور صداقت، امانت اور دیانت پر مبنی تجارت قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت کے حصول کا ذریعہ ہے اور ان اوصاف سے متصف تاجر کو قیامت کے دن، حضرات انبیاء علیہم السلام، صدیقین رحمہم اللہ اور شہداء کرام رحمہم اللہ کی رفاقت و معیت کی بشارت آپ ﷺنے دی ہے کہ ’’راست باز اور امانتدار تاجر، حضرات انبیاء علیہم السلام، صدیقین رحمہم اللہ اور شہداء کرام کے ساتھ ہوگا‘‘۔ (ترمذی) ایک دوسری حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ سچ بولنے والا تاجر قیامت کے دن عرش الٰہی کے سایہ تلے ہوگا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ سچائی کے ساتھ تجارت کرنے والا قیامت کے دن عرش کے سایہ میں جگہ پائے گا‘‘۔ (ترغیب) اسی طرح سچ بولنے والے تاجر کو سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے کی خوشخبری دی گئی ہے۔ آپﷺکا ارشاد عالی ہے کہ ’’ جنت میںجانے والوں میں سب سے پہلا شخص سچ بونے والا تاجر ہے‘‘۔ (کنزل العمال) زبان و عمل کے سچے تاجر کی جنت میں نرالی شان ہوگی۔ سچ بولنے والا تاجر بلاروک ٹوک جنت جائے گا۔ آپ ﷺنے فرمایا ہے کہ ’’ سچائی کے ساتھ تجارت کرنے والے کو جنت جانے سے روکا نہیں جائے گا‘‘۔(اتحاف السادۃ) (بشکریہ ماہنامہ الحسن)

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 185 reviews.